عبدالرافع رسول
منگل9فروری2016 کو افضل گورو کی برسی پر تقریب کا اہتمام کرنے والے جواہرلال یونیورسٹی کی طلباء یونین کے صدراوردیگرکئی طلباء کے خلاف غداری کا کیس درج کر دیا ہے ۔یہ کیس بھارتیہ جنتاپارٹی کے رکن پارلیمنٹ ممبر مہیش گری اور آر ایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP) یا’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘کی مدعیت پرنئی دہلی کے وسنت کنج،شمالی تھانہ میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124غداری اور دفعہ.B 120مجرمانہ شازش کے تحت درج دہلی پولیس نے درج کیا گیا ہے ۔واضح رہے کہ 9فروری منگل کو (JNU)یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلبا ء کی ایک مٹھی بھرتعدادنے افصل گوروکی برسی کے موقعہ پر یونیورسٹی کمپس میں ایک تصویری نمائش کرنے کاپروگرام بنایاتھاجس کیلئے انہوں نے پہلے ہی یونیورسٹی انتظامیہ سے باضابطہ طورپر اجازت حاصل کی تھی جس کے خلاف بی جے پی اور آر ایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP) یا’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘سے وابستہ طلبا ء نے احتجاج کیا اور اس موقعہ پر ہاتھ پائی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ۔چنانچہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP) یا’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘سے وابستہ طلباء کے دبائومیں آکر بعدمیں یونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت نامہ منسوخ کر دیا ۔ تاہم طلبا ء نے اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے تقریب کا اہتمام کرہی لیا۔ بی جے پی کی حلیف جماعت وشنو ہند پریشد نے یونیورسٹی حکام کودھمکی آمیزلہجے میں کہا کہ جواہرلال نہرویونیورسٹی) (JNUمیں پیش آمدہ واقعات ان کیلئے ایک امتحان سے کم نہیںاس لئے اگر کارروائی نہیں ہوئی تو یونیورسٹی بند کی جائے گی جبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی نے افصل گورو کی برسی منانے والے طالب علموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ جواہر لعل یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاجی پروگرام نے راجدھانی میں ہلچل مچادی ہے اوربھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے احتجاجی پروگرام پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ قوم مخالف سرگرمیاںبرداشت نہیں کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ دہلی پولیس نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمارکوغداری کے الزام میںگرفتار کر لیا ہے جبکہ پولیس کو اس معاملے میں5طالب علموں کی تلاش میںہے۔ جمعہ12فروری 2016 کودلی پولیس نے جواہر لعل یونیورسٹی کے احاطے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار کو دھر لیا ۔کنہیا کمار کو بعد دوپہر دہلی ایک عدالت میں پیش کیاگیا جہاں سے انہیں غداری ،مجرمانہ سازش کے الزامات کے تحت تین روز کیلئے پولیس ریمانڈ میں بھیج دیاگیا۔کنہیا کو میٹرو پالٹین مجسٹریٹ لولین کی عدالت میں پیش کیاگیا جہاں پولیس کی پانچ روز کیلئے ان کی حراستی پوچھ تاچھ طلب کی تاکہ دہشت گرد گروپوں کے ساتھ اس کے اور روپوش طالب علموں کے روابط کی تحقیقات کی جاسکے۔پولیس نے عدلیہ کو بتایا کہ کنہیا ان ملوثین کی پہچان کیلئے بھی پولیس کو مطلوب ہے جنہیں تقریب کے دوران قوم مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھاگیا ہے۔انہوں نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ یہ سیاسی کیس ہے اور انہیں صرف اس وجہ سے کیس میں پھنسایا جارہا ہے کیونکہ اس نے یونین کے صدارتی انتخاب میں اے بی وی پی کے امیدوار کو شکست دی تھی۔سماعت کے دوران پولیس نے دعوی کیا کہ پانچ دیگر ملوثین ،عمر خالد ،آننت پرکاش ،راما ناگا،آشوتوش اور انربھان کیمپس سے روپوش ہوچکے ہیں۔اسے قبل جمعرات11فروری کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں منگل کو افضل گورو کی برسی پر تقریب کا اہتمام کرنے والوں کے خلاف غداری کا کیس درج کر دیاتھا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین نے یونین کے صدر کنہیا کمار کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلبا ء کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جارہا ہے اور پولیس انہیں بے بنیاد الزامات کے تحت نشانہ بنا رہی ہے۔سٹوڈنٹس یونین کی نائب صدر شہلا رشید شولہ نے کاکہناہے کہ پولیس بے پرواہ ہوکر کیمپس میں گشت کررہی ہے اور طلباء کو چن چن کر دھر لیاجارہا ہے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بدنام کیاجارہا ہے ۔سٹو ڈنٹس ایسو سی ایشن کاکہناتھاکہ یونیورسٹی انتظامیہ بھارتیہ جنتاپارٹی اورآرایس ایس کی طلبہ ونگ’’ اے بی وی پی ‘‘کی چنند ہ کارروائی کے خلاف طلباء کو تحفظ فراہم کیوں نہیں کررہی ہے ؟۔کیوں پولیس کو کیمپس میں بلا امتیاز طلباء پکڑنے کی اجازت دی گئی ہے ؟جے این یو سٹوڈنٹس یونین نے پولیس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نظر یاتی مخالفین کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے ۔انہوں نے بھاجپا حکومت پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طلباء کو حیدر آباد یونیورسٹی کے مہلوک اسکالر روہت ومولہ کی طرح انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہی ہے اورپولیس انہیں روہت ومولہ کی طرح نشانہ بنارہی ہے ۔وہ ہ انہیں بھی ومولہ کی طرح از خود پھانسی پر لٹکاتا دیکھنا چاہتی ہے تاہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہر مردہ روہت بھارت میں طلباء تحریک کو مزید مضبوط بنائے گا۔ادھرجواہر لعل نہرو یونیورسٹی ٹیچرس ایسو سی ایشن (JNUTA)نے ایک بیان جاری کرکے حد سے زیادہ پولیس کارروائی کو جواہرلال نہرو یونیورسٹی پر حملہ قرار دیا۔بیان میں کہاگیاجے این یو تدریسی برادری جمہوری اقدار کو درپیش خطرات پر انتہائی حد تک متفکر ہے حالانکہ ان اقدار نے یونیورسٹی کو اپنے سماجی کام انجام دینا یقینی بنانے اور اعلیٰ تعلیم میں ایک وقاری ادارے کے طور پر اپنی پوزیشن یقینی بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
ادھردہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ایس اے آر گیلانی کیخلاف بھی یہ کہتے ہوئے دہلی پولیس نے غداری کامقدمہ درج کیا کہ ان کے زیرانتظام پریس کلب آف انڈیا میں منعقدہ ایک تقریب میںمبینہ طور کچھ لوگوں نے افضل گورو کے حق میں نعرے بازی کی تھی ۔دہلی پولیس کمشنر جتن نروال کاکہناتھاکہ گیلانی اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف انڈین پینل کوڈ کے تحت یہ کیس درج کیاگیا،اورباضابطہ ایف آئی آر درج کی گئی ۔نروال کاکہناتھاکہ دہلی پولیس نے جمعہ12فروری کو گیلانی اور دیگران کے خلاف کیس میڈیا رپورٹوں کو دیکھ کر پولیس نے از خودغداری کایہ کیس درج کیا۔نروال کاکہناتھاکہ گیلانی کو اس لئے فریق بنایا گیا کیونکہ وہ تقریب کا اصل منتظم تھا۔جتن نروال کاکہناتھاکہ پریس کلب میں ایک ہال کی بکنگ کیلئے گیلانی کے ای میل سے ہی گزارش کی گئی تھی اور تقریب عوامی اجتماع کی نوعیت کی تھی۔ادھرپریس کلب آف انڈیا نے جمعرات کو ہی اپنے اس ممبر کے نام وجہ بتا نوٹس جاری کیا جنہوں نے بدھ کو اس تقریب کیلئے ہال بک کیاتھا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طالب علموں نے افضل گوروکی برسی کے موقع پر کوئی تشدد کیا اور نہ کوئی تخریبی کارروائی عمل میں لائی ہے۔ انہوں نے محض آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression) کے حق کواستعمال کیا۔ البتہ اس کے خلاف دہلی پولیس، ویشوہندو پریشد،بی جے پی اورآرایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP)اور بھارت کے میڈیا مافیا نے جس طرح کا ہڑبونگ مچارکھی ہے، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ویسے بھی اب بھارتی میڈیاکاچونچال ہی بھارت میں حکمرانی کرتاہوانظرآرہاہے ۔تصویرکاجورخ وہ دکھادے اسے ہی سچ، حتمی اورحرف آخرسمجھاجارہاہے ،جس کے خلاف وہ کھڑا ہوگیا،ریاستی طاقت، انتظامیہ اورمقننہ ، طبلہ سازی میںاسکے دوش بدوش کھڑے ہوجاتے ہیںاوراسی کی منشاکے مطابق اوراسی کی مرضی کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ نئی دلی میں DSU ، AISF اور SFI سمیت دیگر طلباء تنظیموں کی طرف سے مقبول بٹ اور افضل گورو کے قتل کو عدالتی قتل قرار دے کر اس کے خلاف احتجاج کرنے پرزہرناک اورمتعصب میڈیا کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کشمیریوں کے حق میں حصول انصاف کی خاطر آواز اٹھانا دراصل نئی دہلی کی قیادت کوبھارت کے بانی وزیراعظم آنجہانی جواہرلال نہروکی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدے اورمواعیدیاددلاناہے اوراس طرح کے رویے کوئی غداری نہیں ہوتے۔واضح رہے کہ زہرناک اورمتعصب بھارتی میڈیا ،بھارت کے انسان دوست دانشور ان ، اسکالرز اور طلباء جوکشمیریوں کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک پرآوازبلندکرنے کی کوشش کررہے ہیںکو غدار کہہ کر حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔
سچی بات یہ ہے کہ جے این یو سٹوڈنٹس یونین صدر کی گرفتاری اور بعض طالب علموں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیاجانابھارت کے نام نہاد جمہوری دعوئوں اور آزادی اظہارِ رائے کی کلعی کھول دیتا ہے۔انصاف کی نگاہ سے دیکھاجائے تو JNUکے طلبانے افضل کی تیسری برسی کے موقع پرانکے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی ہے یہ کسی بھی طور کوئی جرم نہیں ۔کیونکہ افضل گورو کی پھانسی کے حوالے سے بھارت کے کئی انصاف پسندلیڈروں اور انسانی حقوق کارکنوں نے پہلے بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اسے (JUDICIAL MURDER) قرار دیا گیا ہے، اس تناظر میں اگر JNUمیں زیرِ تعلیم طالب علم بھی آواز اٹھاتے ہیں تو وہ کوئی جرم نہیں کرتے ہیں۔اس پس منظرمیں جے این یوکی طلباء یونین کے صدر کی گرفتاری اور ان پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنا سراسرناانصافی اور ظلم ہے ۔طلبا ء کے خلاف دلی پولیس کے اس قسم کے جارحانہ اقدام تحریر و تقریر کی آزادی کے دعوے داروں کی منفی اورانتقامی سیاست کاری کا مظاہرہ ہے۔اس اقدام سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت میں انصاف پسندی اورانسان دوستی کے لئے ہرگزکوئی جگہ موجود نہیںاورجوکشمیرکے عوام کی مظلومیت کے خلاف اپنی آواز بلند کرے اور ان کی مبنی بر حق موقف کی حمایت کرے ،تووہ صریحاََہی ناقابل برداشت ثابت ہورہا۔سوال یہ ہے کہ آخریہ جبرکب تک جاری رہ سکے گاکب تک کشمیری عوام کے حق میں ا ٹھ رہی آواز کو صرف نظرکیاجاتارہے گااورغداری کے مقدمات اندارج کرتے ہوئے دباتاجاتارہے گا۔اس نوشتہ دیوارکوپڑھ لیناچاہئے کہ اگر آج یونیورسٹی طلباء نے ہمت کرکے سچائی کے لئے آواز اٹھائی ہے تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب بھارت میںہرطرف کشمیریوں کے حق میں اوربھارتی مظالم کے خلاف
آوازیں بلندہوجائیں گی۔ بھارتی حکام کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کشمیرکے حوالے سے وہ زیادہ دیر تک اپنے عوام کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ بھارت کا انسان دوست فہمیدہ طبقہ اب یہ کہانی پوری طرح سمجھ چکاہے کہ کس طرح کشمیریوں کوحشرات الارض کی طرح مسل دیاجاتاہے۔
جب سے بھارت میںزعفرانی تنظیموں کاراج قائم ہونے کے بعد پہلے یکے بعددیگرے کشمیری طلبہ کومختلف بہانوں سے ستایارہاہے اوراب بھارت کی سٹوڈنٹ یونینوںکوکشمیرکے نام پرگھیرلیاجارہاہے اوراس طرح مبینہ طورپر آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression) پر مکمل طور پابندی عائد کردی گئی ہے۔بلاشبہ بھارت میں کشمیرکے نام پر طلبہ کے ساتھ پے درپے پیش آنے والے بدترین واقعات چشم کشاہیں ۔بی جے پی کے برسراقتدارآنے کے بعد طلبہ کے ساتھ پیش آئے ان گنت واقعات میں سے چندایک کاتذکرہ کرنایہاںاس لئے ضروری سمجھتاہوں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ بھارت میںطلباء کے ساتھ کشمیرکا لاحقہ کس قدرناقابل برداشت ثابت ہورہاہے۔ 2014کشمیرمیںآئے سیلاب کے دوران وسطی بھارت میںزعفرانی مشتعل ہجوم نے شہر اوجین میں وکرم یونیورسٹی میںیونیورسٹی کے کیمپس میںقائم کشمیرکے سیلاب زدگان کے امدادی کیمپ میں توڑ پھوڑ کر دی اورجمع شدہ سامان باہرپھینک دیا۔ یہ سارے مناظر بھارتی میڈیاچینلز پر نشر بھی کیے گئے۔زعفرانی مشتعل ہجوم شہر اوجین میں وکرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جواہرلال کول کے کمرے میں گھس گیاانکے آفس تہس نہس کیا اورانہیں اس قدر زدو کوب کیا کہ انہیں اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہونا پڑا۔ بھارتی ریاستوں میں کشمیرکے لاحقے کے ساتھ طلبہ کوبے عزت کیاجارہاہے ،انہیں مارمارکر تعلیمی اداروں سے بے دخل کیاجارہاہے ۔گذشتہ برس کاالمیہ جوبھارتی ریاست راجستھان میں زیر تعلیم کشمیر کے طلبہ کے ساتھ پیش آیاکون بھلاسکتاہے کہ جب پولیس اور مقامی نوجوانوں نے مبینہ طور ان پرجان لیوا حملہ کیا ۔حملے میں کئی طلبہ زخمی ہوئے جبکہ کالج انتظامیہ نے طالب علموں کو مبینہ طور کالج سے بے دخل کردیا۔ اس حملے اورکالج سے بے دخلی کے بعدان لٹے پٹے کشمیری طلبہ نے واپسی کی راہ لی ۔یوں ان کاتعلیمی کیئریربربادہوگیا ۔کشمیرکے یہ طلبہ بھارتی وزیراعظم کی اسکالر شپ سکیم کے تحت بھارتی ریاست راجھستان میں زیر تعلیم تھے ۔ ہمیں اچھی طرح یادہے کہ جب پیسیفک انسٹی ٹیوٹ (Pacific Institute) اودھے پور میں زیر تعلیم طلبہ دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے ہوسٹل میں جمع ہوگئے توان کے ساتھ کیاہوا۔ حملہ آوروں نے ان کی مارپیٹ کی، ان کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور الماریوں میں جتنی بھی چیزیں،لیپ ٹاپ، کتابیں تہس نہس کی ۔
اس سے قبل 14 اپریل 2015کوبھارت کی ریاست ہریانہ کے روہتک کالج آف انجینئرنگ اینڈ منیجمنٹ کی انتظامیہ نے پندرہ کشمیری طلباء کوبھارتی وزیراعظم اسکالرشپ اسکیم کی طرف سے اسکالر شپ کے وعدے کے باوجود رقم نہ ملنے پر ادارے سے بے دخل کردیا ،انہیں کھلے آسمان تلے سڑکوں پر رہنے پر مجبور کردیاگیا، انہیں امتحانات میں شرکت سے بھی روکا جارہا ہے اور اس طرح جان بوجھ کران کا مستقبل تاریک بنا دیاگیا۔کشمیری طلبا ء کی داستان غم کالج انتظامیہ سننے کے لئے تیا ر نہیں ہوئے۔ان واقعات سے ظاہرہوتاہے کہ بھارتی ریاستوں میں کشمیری طلباء کویونیورسٹیوں اورہوسٹلوں سے زبردستی نکالا جاتارہا ہے اور کشمیری طلبا ء کئے مستقبل کے ساتھ جان بوجھ کر کھلواڑ کیا جارہا ہے۔
بہرحال دہلی کی جواہرلال نہرویونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ پیش آنے والا تازہ واقعے سے یہ بات الم نشرح ہورہی ہے کہ دنیا بھر میں کی جانی والی تنقید، ادیبوں، فنکاروں کے ایواردز کی واپسی،سول سوسائٹی کا احتجاج اقلیتوں کے پریشان چہرے کچھ بھی زعفرانی انتہا پسندوں کو راہ راست پر نہ لاسکے،اورزعفرانی انتہا پسندوں نے اقلیتوں پر متواترحملوں کے بعد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔حالیہ واقعے میںبھارت میں سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یاآر ایس ایس کے ترجمان ہفت روزہ’’ پانچ جنیہ ‘‘نے دہلی کی معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی کوملک مخالف قوتوں کا اڈہ قرار دیا ہے۔ رسالے میں کہا گیا ہے کہ’’جواہرلال نہرویونیورسٹی ‘‘ میں ہندوقوم پرستی کو تقصیر سمجھا جاتا ہے،ہندوستانی ثقافت کو بھونڈے انداز میں پیش کیا جاتا ہے ، کشمیر سے فوج کے ہٹائے جانے کی حمایت کی جاتی ہے اور مختلف قسم کی دوسری ملک مخالف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔زعفرانی انتہا پسندوں کی جانب سے اس بیان کے بعد ملک بھر میں شدید غم وغصے کا اظہار کیا جا رہاہے۔سوشل میڈیا میں بھی زبردست رد عمل آیا ہے اور بحث زوروں پر ہے۔
جواہرلال یونیورسٹی ظاہرہے کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہروکے نام پرقائم کی گئی ہے کہ جن کے ہوتے ہوئے کشمیرکاتنازع اٹھ کھڑاہوااورجواس قضیے کے چشم دیدگواہ بھی ہیں اوراس کے پیداکرنے کے ذمہ داربھی ۔سوال یہ ہے کہ کشمیرکے حوالے سے نئی دہلی کیوں آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression) کاگلاگھونٹ رہی ہے ۔کیا تاریخ کشمیر کے صفحات پریہ اندراج نہیں کہ کس طرح ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہرو نے سری نگرکے لال چوک میں کھڑاہوکراہل کشمیرسے یہ وعدہ کیاکہ کشمیرسے بہت جلدبھارتی فوج کوواپس بلایاجائے گا،کیاوہ کشمیرکوخود اقوام متحدہ میں نہیںلے گئے ،کیاکشمیرپر انکے 14ایسے مختلف بیانات ریکارڈپرموجودنہیں کہ جن میں پنڈت جی نے بحیثیت وزیراعظم ہند،اہل کشمیرسے وعدہ کیاکہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پرچم تلے استصواب رائے کا موقع دیاجائے گا ۔یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی پنڈت نہرو پرالزام عائد کرتے رہے ہیں کہ انھوں نے 1948 میں جموں وکشمیر کے تنازعے کواقوام متحدہ میں لے جانے کا غلط فیصلہ لیا تھاجس کے پس منظر میںاقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کئی قراردادیں منظور کیں ۔ان قراردادوں میں ریاستی عوام کو حق خودارادیت کی ضمانت دی گئی او ریہ کہ ریاست کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے انہیں رائے شماری کا حق ملے گا۔بی جے پی بھی مسئلہ کشمیرکوایک حقیقت کے طورپرمانتی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی قیادت مسئلہ کشمیر کے معرِض وجود میں لانے کے لئے جواہر لعل نہروکوموِردالزام ٹھراتے ہیں۔بی جے پی لیڈرن جموں وکشمیر کی گھمبیرصورتحال حال کے لئے جواہرلعل نہروکو ان الفاظ میں ذمہ دارٹھراتے رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیرماسوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے کہ یہ پاکستان کانامکمل ایجنڈا ہے جو تقسیم کے نتیجے میں اور نہرو کی نظریاتی لغزشو ں کی وجہ سے پیدا ہواہے۔یہ سب لوگ پنڈت نہرو کو کشمیر کا زکوہندوستان کے گلے میں دائمی طور ناسورسمجھتے ہوئے نہروکو ہدِف تنقید بناتے ہیں ۔ بی جے پی قیادت پنڈت نہرو کی جانب سے یکم جنوری 1948 کواقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانے کے عمل کو مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پرابھارنے کے لئے قصور وار بھارت کے اولین وزیراعظم کوگردانتے ہیں ۔
آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression)کے حق کے تحت کشمیرکامعاملہ جہاں بھی اٹھے تو مباحثوں میںلازماََ انہی جواہرلال نہرو کے وعدوں ، عہد وپیماں او ربیانات کی گونج سنائی دیتی ہے اوردیتی رہی گی ۔یہ الیہ نہیں تواورکیاکہ کشمیرسے متعلق حقائق کواس طرح جھٹلایاجارہاہے حتیٰ کہ کشمیرمیں استصواب کرانے کاوعدہ کرنے والے جواہرلال نہرو جن کے نام پرقائم شدہ JNUیونیورسٹی میں آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression) ۔کاگلاگھونٹاجارہاہے۔ کشمیرروزاول سے ہی دنیاکو یہ بات یاددلاتی رہی ہے کہ نئی دلی جواہرلعل نہرو کے ریاستی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے پوری کرے اوراسے ان وعدوں سے منحرف ہونے نہیں دیناچا ہیے ۔جواہرلال نہرو نے کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا تھاکہ پوری ریاست جموں وکشمیر جیسے کہ اس کی ہیئت 14اگست1947 کو تھی کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میںاسی پوزیشن میں کرایا جائے گا اور یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے ۔نہرو نے 1953 کے بعد بھی اپنے وعدوں کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔لیکن پھرکیاہوااس پرتاریخ بھی آنسوں بہانے پرمجبورہے۔موجودہ دورظلمت میں بلاشبہ برطانیہ کوبہرحال یہ کریڈیٹ جاتاہے کہ اس نے اسکاٹ لینڈکے عوام کے ساتھ اگرمگرکئے بغیر بالآخراستصواب کا وعدہ پوراکیا یہ الگ بات ہے کہ اسکاٹ لینڈکے عوام نے استصواب میں برطانیہ کے حق میں فیصلہ سنایا۔برطانوی جزیر ہ کی شمالی شاہی مملکت اسکاٹ لینڈاوربرطانیہ کی شاہی حکومت نے ایک سیاسی معاہدہ کرکے تین صدی قبل سنہ1707میں متحدہ سلطنت برطانیہ (United Kingdom of Britain )کا وفاق قائم کیا۔یہ وفاق مضبوطی سے چلتا رہااور اسکاٹ لینڈ کے باشندوں کو کبھی شکوہ نہیں ہوا۔ نہ حکومت برطانیہ نے کبھی معاہدے کی شرائط کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ قومی اقتدار میں وفاق کے دونوں حصے پورے اطمینان سے شریک رہے۔البتہ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے رویہ سے بعض شکایات پیدا ہوئیں ۔عرصہ گذرجانے کے بعدبالآخرجب برطانیہ نے یہاں ریفرنڈم کرایاتوبرطانوی حکمرانوں کے مجموعی رویے اسکاٹ لینڈ کے باشندوں نے وفاق برطانیہ سے الگ ہونے کے نظریہ کی تائید نہیں کی۔برطانیہ سے علیحدگی کی یہ تحریک جو عرصہ سے چلتی رہی،اس دوران اسکاٹ لینڈ تحریک کے قائدین کو کبھی گرفتار کیا گیااور نہ ان کے سٹوڈنٹس اورطلباء پر غداری کامقدمہ درج ہوا، مقامی باشندوں کے شہری حقوق پرشب وخون ماراگیا اور نہ ایسے بدنام زمانہ کالے قوانین کے ساتھ مسلح دستے تعینات کئے گئے، کہ جن کے ذریعے سے یہاں کے عوام کے میدانوں کوقبرستانوں میں تبدیل کیاگیا۔کسی بھی علاقے میںیہاںبے نام اجتماعی قبریں بنیں اور نہ کسی بستی کوآگ اورخون کے دریاسے گذاراگیا، یہاںخواتین بیوائیں ہوئیں اورنہ ہی یتیموں کی فصل دیکھی گئی۔ حد یہ ہے کہ تحریک کے قائد کو علاقائی حکومت کے منصب سے ہٹایا بھی نہیں گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ برطانیہ کم از کم اپنی حدود کے اندر جمہوری قدروں کا کس قدرلحاظ کرتا ہے۔ اس طرح کے تنازعات کو حل کرنے کا یہی ایک مہذب طریقہ ہے۔